غروبِ محبت کی کہانی -
اس احساس سے وہ اتنا جان گئی تھی کہ اس کے شوہر کی دنیا الگ ہے ابھی بھی… وہ بیوی بن کر بھی اس کی دنیا کا باسی نہیں بن سکتی… کیونکہ دل کی دنیا کی آباد کاری تعلق سے نہیں احساس سے ہوتی… پسندیدگی اور چاہت کے احساس سے… پا لینے اور اپنائے رکھنے کے احساس سے۔
وہ یہ سب سوچ رہی تھی لیکن اگر اسے سوچنے کا کام کرنا ہی تھا تو بہت پہلے کرنا چاہئے تھا،اب دیر نہیں بہت دیر ہو چکی تھی… لیکن اگر وہ یہ سب سوچ بھی لیتی تب بھی وہ یہی کرتی۔
”اس سے شادی۔“
ایک دن تنگ آ کر وہ اس کی منت کرنے لگی کہ وہ اس کے ساتھ کہیں باہر چلے… اسے کھلی ہوا میں لے چلے… اس کا ہاتھ پکڑ لے… اس سے چند باتیں کرے… اسے اس پاتال سے کچھ دیر کیلئے نکالے جہاں وہ اکیلی پڑی رہتی ہے۔
”میں نے تم سے پہلے ہی کہا تھا مجھے گھر میں رہنے والی بیوی چاہئے…“
”تو کیا میں گھر میں رہتی؟؟“
”بس پھر گھر ہی رہو…“
”کیا گھر میں رہنے والی بیوی اپنے شوہر کے ساتھ باہر نہیں جاتی… اپنے شوہر کے ساتھ بھی نہیں؟“
”تو تمہیں ہر صورت باہر ہی جانا ہے۔
باہر کے لوگ،باہر کی دنیا… باہر باہر…“
”مجھے تمہارے ساتھ باہر جانا ہے… میں تفریح نہیں چاہتی کچھ سکون چاہتی ہوں۔“
”ایک ہی بات ہے…“ اتنا پڑھا لکھا شخص کتنے چھوٹے طنز کر رہا تھا اسے یہ زیب نہیں دیتا تھا۔
”ٹھیک ہے ہم باہر نہیں جا سکتے… میں باہر نہیں جا سکتی،تو کیا اس گھر کی چھت تلے ہم ایک دوسرے کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے…؟؟ ایک دوسرے کا خیال نہیں رکھ سکتے…؟؟ تم گھر آتے ہو… بمشکل کھانا کھاتے ہو اور پھر سے باہر چلے جاتے ہو… تمہارا کہنا ہے کہ تم واک کیلئے جاتے ہو… اور تم اس وقت واپس آتے ہو جس وقت تمہیں یقین ہو جاتا ہے کہ میں سو چکی ہونگی… میں سو نہیں جاتی… میں سوتی بن جاتی ہوں تاکہ تم واپس نہ پلٹ جاؤ… تم گھر میں جہاں کہیں بھی بیٹھتے ہو… میں تمہارے پاس بیٹھتی ہوں تو تمہیں اسٹڈی کرنا یاد آ جاتا ہے پھر تم اسٹڈی روم سے ہی نہیں نکلتے… اور مجھے ہی درشت انداز لئے کہتے ہو کہ میں تمہیں پڑھنے دوں میں بھی تم سے کہنا چاہتی ہوں کہ مجھے اپنے ساتھ زندہ رہنے دو… ہمارے ایک ساتھ ہونے کا احساس دلانے دو… محبت…“
”میں نے کہا تھا تمہیں محبت نام کی چیز سے میں واقف نہیں ہوں… تمہیں مجھے کتنی بار یاد کروانا ہوگا…“ اس کا لہجہ بھی سپاٹ تھا اور انداز بھی۔
”جھوٹ مت بولو… تمہیں سب معلوم ہے… سب جانتے ہو تم… تم میرے لئے بدل گئے ہو… تم میرے لئے بدلے ہی رہنا چاہتے ہو… تم یہ بھی جانتے ہو کہ مجھے تم سے محبت ہے… بے تحاشا ہے… اتنی زیادہ ہے کہ تم میری گردن بھی کاٹ ڈالو تب بھی یہ محبت نفرت میں نہیں بدلے گی… تم صرف مجھے محسوس نہیں کرنا چاہتے… تم سب جانتے ہو… تم اس جان لینے کو مانا نہیں چاہتے… تم ایسا کیوں کر رہے ہو؟؟“
”میں وہ کر رہا ہوں جو مجھے ٹھیک لگتا ہے“ وہ اپنی مرضی کی بات کا جواب ہی دیتا تھا۔
”تم مجھ پر شک کرتے ہو کیا یہ ٹھیک ہے؟؟ محبت تو دور کی بات ہے ہم دونوں میں تو کوئی رشتہ ہی نظر نہیں آتا،تم اپنی اور میری زندگی کے ساتھ کیا کر رہے ہو؟؟ کیا تمہیں محسوس نہیں ہو رہا کہ کیا کچھ غلط ہو رہا ہے؟؟“
”غلط… وہ تو کہیں نہ کہیں ہو ہی رہا ہوتا ہے۔“
”تمہاری بیوی کیا غلط کرے گی… ہم تو دوست بھی تھے بھول گئے کتنا پسند کرتے تھے تم مجھے…“
”غلط تو کوئی بھی کبھی بھی کر سکتا ہے… اچھا دوست بھی۔
میں کیسے بھول سکتا ہوں یہ…“ یہ کہتے وہ بے حد سنجیدہ تھا۔
”کوئی بھی…“ وہ زیر لب بڑبڑائی۔ عام حالات میں وہ اس کے اس طرح کہنے پر شاید تالیاں بجاتی کہ وہ بنا جانے اتنی ٹھیک باتیں کیسے کر سکتا ہے،اس نے کیسے جان لیا کہ کوئی بھی کبھی بھی کچھ بھی کر سکتا ہے… اچھا دوست بھی…
وہ اکیلی ہی اس کے سامنے کھڑی اس سب کا الزام لے رہی تھی سزا بھگت رہی تھی… وہ اپنے ملال پر تالیاں نہیں بجانا چاہتی تھی۔
وہ اس سے دور ہوتا جارہا تھا کہ یہ اس کا گمان تھا ورنہ وہ اس کے قریب کبھی تھا ہی نہیں… وہ ہر بار ہر دن کچھ سے کچھ بنتا جا رہا تھا… شادی سے پہلے کی دوستی وہ بھول ہی چکا تھا،جیسے اسے جانتا ہی نہیں اور اگر جانتا ہے تو صرف اتنا کہ وہ اس کی بیوی ہے بس… وہ اسے رکھ کر بھول نہیں گیا تھا وہ اسے زندگی میں شامل کرکے پچھتا رہا تھا… وہ اسے فراموش کر رہا تھا… ہر آنے والے دن پہلے سے زیادہ… وہ اسے راستے دکھا رہا تھا نکل بھاگنے کے… اور وہ ان راستوں سے نکل بھاگ نہیں رہی تھی وہ اور سے اور اس میں قید ہوتی جا رہی تھی۔
وہ اس کی ہوتی جا رہیتھی،جس شدت سے وہ اسے خود سے پرے دھکیل کر اس سے دور ہو رہا تھا،اس سے ہزار گنا شدت سے وہ اس کی طرف بھاگ رہی تھی۔
....................